ہانیہ بیٹے آپ مجھے بہت پسند ہیں آپ کی ماما سے بھی میری بات ہوئی ہم سب کی طرف سے ہاں ہے ۔۔ لیکن ہم آپ کی مرضی جاننا چاہتے ہیں آپ پر کوئی دباؤنہیں ہے ، آپ کا فیصلہ جو بھی ہوگا ہمیں قبول ہوگا۔ میرا بیٹا وہاں اس کمرے میں ہے آپ وہاں جاکر اس سے مل لو ۔۔یہ کہہ کر وہ مسکراتی ہوئی اُٹھ گئیں۔ ہانیہ ٹھنڈے پڑتے جسم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی سفید شلوار قمیض میں کوئی رخ بدلے بیٹھ تھا ۔ ہانیہ گھبراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا جو آہٹ پاکر اس جانب پلٹ گیا تھا ۔ وہ کوئی اور نہیں شہروز تھا ۔۔ وہی شہروز جس سے وہ سب سے زیادہ لڑتی تھی جس سے لڑنے کی وجہ سے سارا کالج اس کا دشمن بن گیا تھا۔ آؤ بیٹھو۔۔ شہروز نے سامنے کھڑی ہانیہ کو بیٹھنے کو کہا تو وہ برابر والے صوفے پر بیٹھ گئی ۔ خاموشی سے وہ اپنے ہاتھوں کی اگلیاں مسل رہی تھی ۔ دونوں کے درمیاں بنی اس سکوت کی دیوار کو شہروز نے اپنی مرادنہ وجاہت سے بھرپور آواز کے ساتھ توڑا ، اس کی آواز میں جادو تھا اس کی پوری شخصیت ہی سحر انگیز تھی ۔ امی نے تمھیں سب بتا تو دیا ہوگا۔ لیکن میں تمھاری مرضی جاننا چاہتاہوں ۔اس کے چہرے پر ایک مسکان تھی ،اس کی آنکھوں کی چمک ہانیہ کو نظریں جھکانے پر مجبور کر رہی تھی ۔ میرے پاس آپ کو منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں بچی ۔۔ اس نے نظر یں نہیں اُٹھائی تھیں ۔ یاہو ۔۔بھابھی مان گئیں ۔ باہر اس کی چھوٹی بہن نے خوشی کا نعرہ لگایا ۔ دونوں مسکرائے
۔۔۔۔۔
آئندہ تم کبھی مجھے اپنی شکل بھی نہیں دکھانا ، ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔
غصے میں ابلتے ہوئے کسی نے پھنکارا تھا ۔ چل ہانیہ بس کر ۔ ایک لڑکی نے اسے ہاتھ
سے پکڑ کر کھینچا ۔ یہ جناح میڈیکل کالج تھا جس کے میدان میں اس وقت کافی بھیڑ لگی
ہوئی تھی۔ چاروں طرف پوسٹر اور بینر لگے تھے انتخابات ہوئے طلبہ یونین کے ، جہاں
نتیجہ آنے کے بعد ہانیہ شہروز پر چلا رہی تھی جو اس کے دوست کے مقابل کھڑا ہواتھا
، جو پچھلے سال بھی جیتا تھا مگر اس سال شہروز نے بھاری اکژیت سے جیت حاصل کی تھی
، وہ ٹرانسفر کروا کر آیا تھا ، سوال یہ تھا کہ وہ ایک طالب علم جس کو آئے دو
مہینے ہوئے ہیں وہ کیسے اتنی بھاری اکثریت سے جیت گیا تو ا س کا آسان جواب یہ کہ
وہ ڈیبیٹر ہے اس کی شہرت کا گراف تو پہلے سے ہی اونچا تھا لوگ اسے ویسے ہی پسند
کرتے تھے پھر اس کا اندازِ گفتگو اور اس کی سحر انگیز شخصیت اس نے لوگوں کے دل جیت
لئے تھے یہ انتخابات کیا چیز تھے ۔
یا ر تو کیوں اتنا غصہ کرتی ہے ، جہانگیر اسے سمجھا رہا تھا جو ہانیہ منہ پھلائے بیٹھی تھی ، اس کی اتنی ہمت میرے دوست کر ہر ا دے آئے اسے دن ہی کتنے ہوئے ہیں ۔میں اسے چھوڑوں گی نہیں ۔ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔اچھا جھانسی کی رانی تھوڑا پانی پی لو ۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کیونکہ یہ جہانگیر ہی تھا جس کے ہارنے پر وہ اتنا غصہ تھی ۔
دو ہفتے بعد ۔۔ کوئی ہے دروازہ کھولو ۔۔ ہانیہ زور زور سے لائبریری کے بند دروازے پر ہاتھ ما ر رہی تھی ۔ جب دروازہ کافی دیر بعد بھی نہیں کھلا تو وہ تھک کر دروازے سے ہی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کہیں سے دھواں آنے لگا،اس نے یہاں وہاں دیکھا تو شاید باہر اآغ لگ گئی تھی ۔ اس نے پریشان ہوکر دیکھا تو نظڑ لائیبریر کے اندر بھی اآگ پھیلنا شروع ہوگئی ہے ۔ ۔ اآگ دیکھ ک رتو ہانیہ کے حواس باٹخہ ہوگئی اس نے یہآں وہاں بھاگنا شروع کردیا کچھ سمجھ نہیں ااآرہا تھا کیا کرے تب اچانک کچھ ٹوٹنے کی آواز اآئی تو اتنی دیر میں وہ کھانس کھانس کر دُھری ہوگئی تھی ۔ آہستہ آہستہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا کہ ایک دراز قد شخص اس کی جانب بڑی تیزی سے بڑھ رہا تھا ،وہ کھانستے کھانستے نڈھال ہوچکی تھی، بے ہوش ہونے سے پہلے جو چہرہ اس کو نظر آیا وہ شہروز کا تھا ۔ ۔۔۔
یا ر تو کیوں اتنا غصہ کرتی ہے ، جہانگیر اسے سمجھا رہا تھا جو ہانیہ منہ پھلائے بیٹھی تھی ، اس کی اتنی ہمت میرے دوست کر ہر ا دے آئے اسے دن ہی کتنے ہوئے ہیں ۔میں اسے چھوڑوں گی نہیں ۔ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔اچھا جھانسی کی رانی تھوڑا پانی پی لو ۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کیونکہ یہ جہانگیر ہی تھا جس کے ہارنے پر وہ اتنا غصہ تھی ۔
دو ہفتے بعد ۔۔ کوئی ہے دروازہ کھولو ۔۔ ہانیہ زور زور سے لائبریری کے بند دروازے پر ہاتھ ما ر رہی تھی ۔ جب دروازہ کافی دیر بعد بھی نہیں کھلا تو وہ تھک کر دروازے سے ہی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کہیں سے دھواں آنے لگا،اس نے یہاں وہاں دیکھا تو شاید باہر اآغ لگ گئی تھی ۔ اس نے پریشان ہوکر دیکھا تو نظڑ لائیبریر کے اندر بھی اآگ پھیلنا شروع ہوگئی ہے ۔ ۔ اآگ دیکھ ک رتو ہانیہ کے حواس باٹخہ ہوگئی اس نے یہآں وہاں بھاگنا شروع کردیا کچھ سمجھ نہیں ااآرہا تھا کیا کرے تب اچانک کچھ ٹوٹنے کی آواز اآئی تو اتنی دیر میں وہ کھانس کھانس کر دُھری ہوگئی تھی ۔ آہستہ آہستہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا کہ ایک دراز قد شخص اس کی جانب بڑی تیزی سے بڑھ رہا تھا ،وہ کھانستے کھانستے نڈھال ہوچکی تھی، بے ہوش ہونے سے پہلے جو چہرہ اس کو نظر آیا وہ شہروز کا تھا ۔ ۔۔۔
ہانیہ بیٹا ۔۔ شکر ہے تمھہں ہوش تو آیا ، اس کی امی نے پیار سے سر پر
ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ، پیچھے اس کے دوست جمع تھے ۔ آنٹی میں نے کہاتھا نا اسے کچھ
نہیں ہوگا دیکھیں کیسے آرام سے لیٹی ہے ۔ انعم ۔۔ ہانیہ نے اپنی دوست کا نام پکارا
اور اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔ ارے لیٹی رہو ، تمھیں سانس لینے میں دقت ہورہی تھی
بڑی مشکل سے ۔۔ ہانیہ بات کہتے کہتے رک گئی ۔ کیا ہوا تو کچھ چھپا رہی ہے مجھ سے
۔۔ اس نے پریشان ہوکر انعم سے پوچھا ۔ یار
تجھے پتہ ہے، ہم سب تمھارا انتظار کر رہے تھے کینٹین میں لیکن جب تم نہیں آئی تو
ہمیں لگا کہیں تم گھر نہ چلی گئی ہو لیکن کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ لائبریری کے آس
پاس آ گ بھڑک اُٹھی ہے ، میں وہاں پہنچی تو اسوڈنٹس کی بھیڑ لگ گئی تھی لیکن آگ
اتنی خوفناک تھی کہ بس ، ہم نے فائر فائیٹرز کو کال کرکرے بلایا اسی وقت تیرا خیال
پھر تمھارا مسیج آیا کہ تم اندر ہو میں نے جھانگیر کو کہا اس نے کہا کہ یار ہم کیا
کرسکتے ہیں ، میں نے تیرے بیسٹ فرینڈ طاہر کو کہا لیکن سب باہر کھڑے تھے کوئی کچھ
نہیں کر پایا اسی وقت ایک آدمی آگ میں کود گیا کہ تو اندر ہے وہ کوئی اور نہیں
شہروز بھائی تھے جو تجھے بچانے کیلئے اتنی بھڑکتی آگ میں کود گئے پتہ نہیں کیسے پر
تجھے لے کر ہی باہر آئے ان کا بازو بھی جل گیا اس سب میں لیکن تجھے کچھ نہیں ہونے
دیا انہوں نے اور ایک تو ہے خواہ مخواہ ان سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے ۔ ہانیہ آنکھیں موندے لیٹ گئی اسے شرمندگی محسوس
ہوئی ۔ایک پفتے بعد جب وہ کالج گئی تو ل میں تہیہ کر لیا تھا کہ شہروز سے بات کرے
گی لیکن یہاں تو معاملہ ہی الگ تھا ، جہانگیر اپنے دوستوں کے ہمراہ شہروز کے خلاف ریلی نکال رہا تھاجس میں طاہر
آگے آگے تھا اس کے کچھ اور دوست شہروز کے خلاف زہر اُگل رہے تھے ۔ ہانیہ وہاں گئی
سب نے زور دار نعرہ لگایا اور اس کو صحت مند لوٹنے کی مبارکباد دی ۔ اس نے پوچھا
کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ۔
ہانیہ تجھے پتہ ہے یہ آگ کس نے لگوائی تھی ۔۔ شہروز نے ۔۔۔ وہاں کھڑے
لڑکوں نے اسے بتایا کہ وہ اسی وجہ سے احتجاج کر رہے ہیں الیکشن دوبارہ کروائے
جائیں کیونکہ یہ آگ شہروز نے لگوائی ہے ۔ وہاں سے شہروز کے سپورٹرز بھی آگئے تھے ،
دونؤں گروہؤں کے درمیان بحث شروع ہوگئی ، ہانیہ طاہر اور جہانگیر کو روکنے کی کوشش
کر رہی تھی جو زور زور سے چلارہے تھے ، ہانیہ شور سے ویسے ہی گھبراتی تھی سر تھام
کہ رہ گئی اسی وقت کہیں سے شہروز آگیا ۔اس کے ایک اشارے پر اس کے سارے سپورٹرز
خاموش ہوگئے تھے ۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو جاکر الیکشن کمیشن میں اپنی شکایت درج
کروائے ۔اس طرح کالج کا ماحول نہ خراب کریں میری دونوں ہاتھ جوڑ کرآپ لوگوں سے
گزارش ہے ۔ وہ سب کو لے کر چلا گیا تھا ، وہ سب کوئی پانچ دس نہیں پچاس ساٹھ کی
بھیڑ تھی جسے لے کر وہ جارہا تھا اور ہانیہ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی کیا شان
تھی اس کی کیسے آیا اور اتنا بڑا جھگڑا لمحوں میں ختم کرکے چلا گیا ۔وہ دن تو جیسے
تیسے گزر گیا کیونکہ ڈین نہیں آئے تھے لیکن اگلے دن سب کی حاضری ہوگی یہ اعلان
کردیا گیا تھا دونوں فریقین کو جمع ہونا تھا ۔ نوٹس بورڈ پر نوٹس لگا تھا ۔
اگلے دن شہروز کے سپورٹرز بازوؤں پر نیلے رنگ کی پٹیاں باندھے اس کو
سپورٹ شو کر رہے تھے ۔ اس کی دوست انعم بھی شہروز کی سپورٹر تھی ،ابھی سب کلاس میں
ہی تھی کیونکہ شروع کی کلاسسز جو گیارہ سے پہلے کی تھیں وہ سب خاموشی سے اٹینڈ کر
رہے تھے ۔ جہانگیر والوں نے بازوؤں پر سیاہ رنگ کی پٹیاں باندھی تھیں ایک لڑکے نے
آکر اس کو دی بھی تھی لیکن ہانیہ نے پہنی نہیں تھی ۔
کلاس کے بعد سب ڈین آفس کی جانب کسی قافلے کی صورت میں بڑھ رہے تھے ،
شہروز کو تھوڑی تھوڑی دیر میں اس کے ساتھی کندھوں پر اُٹھا لیتے تھے ، پورا کالج
نعروں سے گونج رہا تھا ۔جب یہ لوگ ڈین کے پاس پہنچے ، ہانیہ بھی بھیڑمیں شامل تھی
۔ جب اندر سے ڈین کے اسسٹنٹ نے شہروز اور
جہانگیر کو بلایا ۔ ہانیہ جلے پائوں کی بلی کی ماندد بے چین یہاں سے وہاں ٹہل رہی
تھی ۔تو کیوں پریشان ہے ۔۔ انعم نے اس کاہاتھ پکڑ کر روکا ۔یا ر وہ۔۔ اس نے نظر
اُٹھا کر انعم کو دیکھا ۔ اس کی نگاہیں بتا رہی تھیں وہ کچھ کہنا چاہتی ہے ۔ تجھے
اندر جانا ہے ۔۔ جواب میں ہانیہ نے صرف گردن ہلائی ۔ ٹھیک ہے تو اند ر چلی جا کچھ
کرتے ہیں ۔ انعم نے پیچھے مڑ کر طاہر کو کہا اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اسے لگا تھا ہانیہ ہی جہانگیر کو
سپورٹ کر سکتی ہے ۔دروازہ کھلااندر سے غصے میں اسٹنٹ نکلا ۔ سر مجھے کچھ کہنا ہے میرا
بیان سچ سامنے لاسکتا ہے جب آگ لگی تھی میں وہی تھی میں نے دیکھا ہے آگ کس نے
لگائی ۔ بھیڑ میں ایک دم خاموشی چھاگئی ۔ چلو اندر ، اتنی دیر سے خاموش کیوں تھی ۔
وہ اسے اندر لے گیا وہاں جہانگیر نے اسے دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ شہروز
نے اس کو ہمیشہ کی طرح مسکرا کر دیکھا۔اسسٹنٹ نے سرگوشی کی ، جی مس ہانیہ آپ تو
جہانگیر کی سپ۔۔ ڈین کچھ کہتے ہانیہ بول پڑی ، سر میں یہاں سچ بتانے آئی ہوں مجھے
کسی کے نام کے ساتھ منسوب نہیں کریں
مہربانی ہوگی ۔ جی تو بتائیے کیا بات ہے ۔ سر یہ میسجز ہیں گروپ کے میری
بات کا ثبوت ، جس کے مطابق یہ آگ جہانگیر اور طاہر کا پلان تھا ، وہ لوگ شہروز کو
نیچا دکھانا چاہتے تھے میں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن کسی نے میری نہیں سنی ،
مجھے لگا جزباتی ہوکر ایسے کہہ رہے ہیں لیکن یہ لوگ سچ میں اتنا گر جائیں گے ۔۔
جہانگیر کی سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیا ہورہا ہے وہ حیرت سے ہانیہ کو دیکھ رہا تھا
جس نے ان لوگوں کا سارا پول کھول کر رکھ
دیا تھا ۔
کچھ دیر بعد جب وہ کمرے سے نکلے تو شہروز نے اپنے گلے میں پڑے اس
نیلے رنگ کے کپڑے کو ہانیہ کے گلے میں ڈال دیا تھا ۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر باہر
آیا تھا۔ سب دیکھ کر حیران تھے تب شہروز
نے بولنا شروع کیا ۔ میں بہت خؤش قسمت ہوں کہ مجھے آپ لوگوں جیسے مخلص دوست ملے
ہیں جوحق بات کہنے سے نہیں ڈرتے ، میں ہماری نئی ساتھی ہانیہ کا شکر گزار ہوں جو
نہ ڈریں نا گھبرائیں اور سچ کا ساتھ دیا ، آج ہانیہ کی گواہی نے ہمیں پھر سرخرو کیا
ہے ۔حق کا بول بالا ہو۔اس کا یہ کہنا تھا کہ سب نے پھر اسے اپنے کندھوں پر اُٹھا
لیا اور نعروں کے ساتھ اسے وہاں سے لیجانے لگے ہانیہ کو اس کے قریبی دوستوں نے
اپنے ہاتھوں کی کڑی بناکر پورے پروٹوکول
کے ساتھ لے کر جارہے تھے ۔
منگنی کی رسم ہوگئی تھی ، ہانیہ اور شہروز اسٹیج پر بیٹھے ہوئےتھے
جبکہ سب آکر گروپ فوٹوگرافس بنوارہے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد شہروز کھڑا ہوگیا اپنے
ایک دوست کو اشارہ کرکے اس نے مائیک تھاما ۔
ایکسکیوز می لیڈیز اینڈ جینٹل مین میرے پیارے امی بابا،
ماما جان اور پاپا آج آپ سب کے سامنے میں اپنی جان ہانیہ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔
اس کی بات سن کر پورے ہال میں اوہوکی صدا گونجی ، ہانیہ کی دوستوں نے اسے کہنی
ماری دیکھو تو زرا دولہا بھائی کیاکہ رہے ہیں، ہانیہ نے شرما کر نظریں جھکا لیں ۔ آج
میں بتا چاہتا ہوں کہ آئی لویو سو مچ ۔۔ جب میں تمھیں پہلی بار دیکھا تھا میں تو
اسی پل دل ہار بیٹھا تھا ۔۔ تمھارا حق بات پر کسی سے بھی لڑجانا مجھے سب سے زیادہ
متاثر کرتا ہے اس دن جو تم نے اپنے دوستوں کو بھی نہیں دیکھا کہ کون غلطی پر ہے بس
آکر سچ کہہ دیا ۔۔ میں تو مر ہی گیا تھا ۔۔ وہ مسکرا یا ۔ سارا ہال اووو ۔۔ کی
آواز کے ساتھ ہنس پڑا ۔ شہروز نے آگے بڑھ
کرایک گٹھنے پر بیٹھتے ہوئے گلابی رنگ کا ٹیولپ اس کی طرف بڑھا یا جو اس کے ڈریس
سے میچ کر رہا تھا ۔ کیا تم میرے ساتھ ڈانس کرو گی پلیز۔۔۔ سب نے آوازیں لگانی شروع کردیں ۔ سے یس سے یس۔۔
ہانیہ نے اس کے ہاتھ سے پھول کر اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھ دیا۔پیچھے کوئی
فرینچ میوزک تھا جس پر وہ اور شہروز چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھا کر ناچ رہے تھے
By Kainat shabbir.
No comments:
Post a Comment