Ticker

opportunity Alert: If you have passion to write Media related stuff then Media Framing is right place for you!........send your Articles and get your story featured in our blog...... Best Article shall be entitled with story of the week!

Friday, 11 May 2018

Paradise of kashmir (Neelum Valley)



Neelum valley is one of the beautiful places of Azad Kashmir and it’s named after the river which has curves like snake and has blue color. It is also called as the “PARASIDE OF KASHMIR”. There is a contradiction that this valley was named after a precious stone called Neelum. Neelum Valley is located in the Kashmir Region and to the North & the North East of Muzaffarabad and running parallel to the Kaghan Valley.
It mostly contains hills and mountains with great valleys. The valley has thick forest, streams and rivers. This valley is dipped in most amazing beauty and attracts lots of tourists from within the country and other foreign countries as well.
This land also has many local fruits which are of great taste including Apples, Apricots, Walnuts and Plums which are famous. A large number of tourists visit it in summers. The whole valley gives fascinating and beautiful scenery. There is also a mountain “SARWALI” (6326 meters) which is one of the highest mountains in Azad Kashmir. The valley include lush green forests and high altitude lakes makes the surrounding heavenly and it is like a dream come true for the people who visit
Some of its famous places like Shounter Pass, Chita Khata, Ratti Gali, Baboon, Noori Top, Sharda, Kel, Surgon and many more are mentioned by famous tourists like Mustansar Hussain Tararr etc. Tararr even wrote a travelogue on after visiting there. The three rivers present in this area are Jhelum, Neelum and Poonch.
The people of districts Kotli,Mirpur & Bhimber, are simple, truthful and deeply attached to their land. The culture of this area resembles to that of the adjoining area of Punjab. People here mostly follow the culture which quite resemble to that of Punjab

Tuesday, 8 May 2018

خدا کی لاٹھی بے آواز ہے

تقسیم ہند سے پہلے چونکہ سارا علاقہ ہندوستان کہلاتا تھا ۔سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے قْصبے کا رہائشی محمد قاسم اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ گزر بسر کررہا تھا اور اس کا ایک چھوٹا سا گھر تھا اور تھوڑی سی آبائی زمین تھی جس سے اس کا اسکی بیوی اور پانچ بچوں کا گزر بسر بہت مشکل سے ہورہا تھا ۔محمد قاسم ایک گاڑی بان تھا ۔ معاشی طور پر کمزور محمد قاسم اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہا تھا ۔ غربت نے اسکی کمر توڑ رکھی تھی اس نے اپنے بچوں کی بہتر پرورش اور مستقبل کیلئے شہر جانے کا سوچا۔ اپنی آبائی زمین گاؤں کے چوہدری کے پاس رکھوائی اور شہر کی راہ لی ۔ دہلی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں چھوٹے سے گھر میں رہائش اختیا کی اورامرتسر جا کر کام کرنے لگا ۔ ابھی زنگی اپنی ڈگر پر آّئی بھی نہ تھی کہ محمد قاسم کے گھر پر ائک موضی مرض ’ خسرہ‘ نے حملہ کردیا جس سے چند ہی دنوں میں اسکی بیوی انتقال کرگئی اب پانچ بچوں کی پرورش کی زمہ داری بھی اسکے کندھوں پر آگری ابھی وہ اپنی بیوی کی موت کے غم سے باہر نہ آیا تھا کہ اسکے دوسرے بیٹے کی بھی اسی بیماری کی وجہ سے موت واقع ہو گئی اس دکھ کو جھیل ہی رہا تھا کہ یکے بعد دیگرے د و اور بچوں کی موت نے اسے ہلا کر رکھ دیا قاسم اپنے بڑے اور سب سے چھوٹے بیٹے جس کی عمر محض چھ ماہ تھی کے ساتھ اکیلا رہ گیا ۔ زخموں سے چور محمدقاسم نے زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کی وہ دکھوں کا مارا اپنے بچوں کی پرورش کیلئے دوبارہ کام پر جانے لگا ان دنوں پاکستان بننے کی تحریک زوروشور سے جاری تھی ۔اور مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی تھی ۔وہی ہندو جو مسلمانوں کے بھائی بنے پھرتے تھے مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہوگئے ۔محمد قاسم اپنے دونوں بچوں کوگھر میں بند کر کے امرتسر جاکر نوکری کرتا اور بچوں کو تلقین کرتا کہ گھر میں کوئی آواز نہ کرنا اور نہ ہی بلا وجہ دروازہ کھولنا ۔ قاسم شام کو گھر واپس آتا ،تھکا ہارا قاسم پہلے بچوں کو نہلاتادھلاتا اور پھر کھانا کھلا کر سلا دیتا قاسم کا چھوٹا بیٹا جسکو ماں کی اشد ضرورت تھی بیمار رہنے لگا اور قاسم کو ہر وقت دہڑکا لگا رہتا مگر شاید خدا کواس معصوم کی زندگی منظور نہ تھی ان ہی دنوں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا اور ہندو مسلمانوں کو چن چن کر قتلکرنے لگے حالات د ن بدن مسلمانوں کیلئے کٹھن ہوتے جا رہے تھے ۔محمد قسم نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور اپنے دونوں بچوں کے ساتھ سیالکوٹ جانے کیلئے تیار ہو گیا جو اب پاکستان کا حصہ تھا ۔ یہ ہجرت آسان نہ تھی ہندو گھات لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی مسلمان زندہ بچ نہ سکے ۔محمد قاسم کسی نہ کسی طرح بچتے بچاتے ہجرت کرنے میں کامیا ب ہو گیامگر ابھی شاید اسکی آزمائش ختم نہ ہوئی تھی ۔وہ اپنی جو زمین چوہدری کے پاس گروی رکھوا کر گیا تھا اس پر چوہدری قبضہ کت چکا تھا ۔ قاسم کیلئے یہ ایک نیا امتحان تھا ۔اس نے اپمے چھوٹے سے گھر میں رہائش اختیا رکی ۔وہ ہندوستان سے لٹا پٹا آیا تھا ۔بدن پر دو کپڑے ، دو کمسن بچوں کا ساتھ اور بھوکے پیٹ ویسے بھی قاسم کو پریشان کرنے کیلئے کافی تھا اب یہ مصیبت بھی سر آن پڑی تھی ۔گاؤں کے چوہدری سے مقابلہ آسان نہ تھا ۔وہ بہت طاقتور تھاقاسم نے مناسب سمجھا کہ چوہدری سے بات کی جائے اور لڑائی جھگڑے کے بغیر اس مسئلے کا حل نکالا جائے ۔بات چیت کرنے سے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا اور قاسم کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ چوہدری نے اسے دھتکار کر نکال دیا ۔اب معاملہ قاسم کی برداشت سے باہر ہو گیا اوراس نے سوچا کہ اب آر یا پار ۔اس نے پختہ ارادہ کیا کہ کل میں اپنی زمین چوہدری کے قبضے سے چھڑواکر رہوں گا اس نے ایک قریبی دوست جو اسکی طرح غریب تھا اس کے ذمہ لگایا کہ اگر میں مارا جاؤں تو ان دونوں بچوں کو کسی نہ کسی طرح ان کے ننھیال پہینچا دینا شاید قدرت کو اس پر رحم آگیا کہجب وہ اپنی زمین پر ہل چکانے گیا اور چوہدری کو للکارا کہ میں اپنی پر ہل چلانے آگیا ہوں ہو اسکی ہمت دیکھ کر چوہدری کی ہمت ٹوٹ گئی چوہدری کے کارندوں نے کوشش کی کہ کسی طرح ا س کو روکا جائے وہ سب مسلح تھے مگر چوہدری نے انہیں روک دیا اس دن سے اللہ نے اس پر کرم کیا اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا سالہاسال محنت کرتے اسکے بیٹے بھی اس کے بازو بن گئے اور اس کے ساتھ محنت مزدوری کرنے لگے ۔قلیل وقت میں اسکا چھوٹا بیٹا جو تھوری بہت تعلیم حاصل کر چکا تھا اس نے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں رکھا آج اس ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ملک کی بڑے اداروں میں ہوتا ہے ۔ اس چوہدری کے بیٹوں نے اسے گھر سے نکال دیا اور جائیداد پر قبضہ کر لیا ۔چوہدری پائی پائی کو ترسنے لگا ۔اللہ کو اولاد کی نافرمانی کبھی پسند نہ آئی چوہدری کی اولاد بھی اللہ کی پکڑ میں آ گئی آج چوہدری کا بیٹا اسی انڈسٹری کے قائم کردہ خیراتی ادارے سے وظیفہ حاصل کرتا ہے ۔قاصم نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اسکی اولاد نے اسکا ساتھ دیا اور آج وہ عزت دار لوگوں کی صف میں شامل ہے اور چوہدری کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
 تحریر : صبا افضل

میری زندگی ۔۔۔




ہانیہ بیٹے آپ مجھے بہت پسند ہیں آپ کی ماما سے بھی میری بات ہوئی ہم سب کی طرف سے ہاں ہے ۔۔ لیکن ہم آپ کی مرضی جاننا چاہتے ہیں آپ پر کوئی دباؤنہیں ہے ، آپ کا فیصلہ جو بھی ہوگا ہمیں قبول ہوگا۔ میرا بیٹا وہاں اس کمرے میں ہے آپ وہاں جاکر اس سے مل لو ۔۔یہ کہہ کر وہ مسکراتی ہوئی اُٹھ گئیں۔ ہانیہ ٹھنڈے پڑتے جسم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی سفید شلوار قمیض میں کوئی رخ بدلے بیٹھ تھا ۔ ہانیہ گھبراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا جو آہٹ پاکر اس جانب پلٹ گیا تھا ۔ وہ کوئی اور نہیں شہروز تھا ۔۔ وہی شہروز جس سے وہ سب سے زیادہ لڑتی تھی جس سے لڑنے کی وجہ سے سارا کالج اس کا دشمن بن گیا تھا۔ آؤ بیٹھو۔۔ شہروز نے سامنے کھڑی ہانیہ کو بیٹھنے کو کہا تو وہ برابر والے صوفے پر بیٹھ گئی ۔ خاموشی سے وہ اپنے ہاتھوں کی اگلیاں مسل رہی تھی ۔ دونوں کے درمیاں بنی اس سکوت کی دیوار کو شہروز نے اپنی مرادنہ وجاہت سے بھرپور آواز کے ساتھ توڑا ، اس کی آواز میں جادو تھا اس کی پوری شخصیت ہی سحر انگیز تھی ۔ امی نے تمھیں سب بتا تو دیا ہوگا۔ لیکن میں تمھاری مرضی جاننا چاہتاہوں ۔اس کے چہرے پر ایک مسکان تھی ،اس کی آنکھوں کی چمک ہانیہ کو نظریں جھکانے پر مجبور کر رہی تھی ۔ 

میرے پاس آپ کو منع کرنے کی کوئی وجہ نہیں بچی ۔۔ اس نے نظر یں نہیں اُٹھائی تھیں ۔ 

یاہو ۔۔بھابھی مان گئیں ۔ باہر اس کی چھوٹی بہن نے خوشی کا نعرہ لگایا ۔ دونوں مسکرائے 
۔۔۔۔۔
آئندہ تم کبھی مجھے اپنی شکل بھی نہیں دکھانا ، ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔ غصے میں ابلتے ہوئے کسی نے پھنکارا تھا ۔ چل ہانیہ بس کر ۔ ایک لڑکی نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچا ۔ یہ جناح میڈیکل کالج تھا جس کے میدان میں اس وقت کافی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ چاروں طرف پوسٹر اور بینر لگے تھے انتخابات ہوئے طلبہ یونین کے ، جہاں نتیجہ آنے کے بعد ہانیہ شہروز پر چلا رہی تھی جو اس کے دوست کے مقابل کھڑا ہواتھا ، جو پچھلے سال بھی جیتا تھا مگر اس سال شہروز نے بھاری اکژیت سے جیت حاصل کی تھی ، وہ ٹرانسفر کروا کر آیا تھا ، سوال یہ تھا کہ وہ ایک طالب علم جس کو آئے دو مہینے ہوئے ہیں وہ کیسے اتنی بھاری اکثریت سے جیت گیا تو ا س کا آسان جواب یہ کہ وہ ڈیبیٹر ہے اس کی شہرت کا گراف تو پہلے سے ہی اونچا تھا لوگ اسے ویسے ہی پسند کرتے تھے پھر اس کا اندازِ گفتگو اور اس کی سحر انگیز شخصیت اس نے لوگوں کے دل جیت لئے تھے یہ انتخابات کیا چیز تھے ۔
یا ر تو کیوں اتنا غصہ کرتی ہے ، جہانگیر اسے سمجھا رہا تھا جو ہانیہ منہ پھلائے بیٹھی تھی ، اس کی اتنی ہمت میرے دوست کر ہر ا دے آئے اسے دن ہی کتنے ہوئے ہیں ۔میں اسے چھوڑوں گی نہیں ۔ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔اچھا جھانسی کی رانی تھوڑا پانی پی لو ۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کیونکہ یہ جہانگیر ہی تھا جس کے ہارنے پر وہ اتنا غصہ تھی ۔
دو ہفتے بعد ۔۔ 
کوئی ہے دروازہ کھولو ۔۔ ہانیہ زور زور سے لائبریری کے بند دروازے پر ہاتھ ما ر رہی تھی ۔ جب دروازہ کافی دیر بعد بھی نہیں کھلا تو وہ تھک کر دروازے سے ہی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کہیں  سے دھواں آنے لگا،اس نے یہاں وہاں دیکھا تو شاید باہر اآغ لگ گئی تھی ۔ اس نے پریشان ہوکر  دیکھا تو نظڑ لائیبریر کے اندر بھی اآگ پھیلنا شروع ہوگئی ہے ۔ ۔ اآگ دیکھ ک رتو ہانیہ کے حواس باٹخہ ہوگئی اس نے یہآں وہاں بھاگنا شروع کردیا کچھ سمجھ نہیں ااآرہا تھا کیا کرے تب اچانک کچھ ٹوٹنے کی آواز اآئی تو اتنی دیر میں وہ کھانس کھانس کر دُھری ہوگئی تھی ۔ آہستہ آہستہ کچھ نظر نہیں  آرہا تھا کہ ایک دراز قد شخص اس کی جانب بڑی تیزی سے بڑھ رہا تھا ،وہ کھانستے کھانستے نڈھال ہوچکی تھی، بے ہوش ہونے سے پہلے جو چہرہ اس کو نظر آیا وہ شہروز کا تھا ۔ ۔۔۔
ہانیہ بیٹا ۔۔ شکر ہے تمھہں ہوش تو آیا ، اس کی امی نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ، پیچھے اس کے دوست جمع تھے ۔ آنٹی میں نے کہاتھا نا اسے کچھ نہیں ہوگا دیکھیں کیسے آرام سے لیٹی ہے ۔ انعم ۔۔ ہانیہ نے اپنی دوست کا نام پکارا اور اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔ ارے لیٹی رہو ، تمھیں سانس لینے میں دقت ہورہی تھی بڑی مشکل سے ۔۔ ہانیہ بات کہتے کہتے رک گئی ۔ کیا ہوا تو کچھ چھپا رہی ہے مجھ سے ۔۔ اس نے پریشان ہوکر انعم سے پوچھا ۔  یار تجھے پتہ ہے، ہم سب تمھارا انتظار کر رہے تھے کینٹین میں لیکن جب تم نہیں آئی تو ہمیں لگا کہیں تم گھر نہ چلی گئی ہو لیکن کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ لائبریری کے آس پاس آ گ بھڑک اُٹھی ہے ، میں وہاں پہنچی تو اسوڈنٹس کی بھیڑ لگ گئی تھی لیکن آگ اتنی خوفناک تھی کہ بس ، ہم نے فائر فائیٹرز کو کال کرکرے بلایا اسی وقت تیرا خیال پھر تمھارا مسیج آیا کہ تم اندر ہو میں نے جھانگیر کو کہا اس نے کہا کہ یار ہم کیا کرسکتے ہیں ، میں نے تیرے بیسٹ فرینڈ طاہر کو کہا لیکن سب باہر کھڑے تھے کوئی کچھ نہیں کر پایا اسی وقت ایک آدمی آگ میں کود گیا کہ تو اندر ہے وہ کوئی اور نہیں شہروز بھائی تھے جو تجھے بچانے کیلئے اتنی بھڑکتی آگ میں کود گئے پتہ نہیں کیسے پر تجھے لے کر ہی باہر آئے ان کا بازو بھی جل گیا اس سب میں لیکن تجھے کچھ نہیں ہونے دیا انہوں نے اور ایک تو ہے خواہ مخواہ ان سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے ۔  ہانیہ آنکھیں موندے لیٹ گئی اسے شرمندگی محسوس ہوئی ۔ایک پفتے بعد جب وہ کالج گئی تو ل میں تہیہ کر لیا تھا کہ شہروز سے بات کرے گی لیکن یہاں تو معاملہ ہی الگ تھا ، جہانگیر اپنے دوستوں کے ہمراہ  شہروز کے خلاف ریلی نکال رہا تھاجس میں طاہر آگے آگے تھا اس کے کچھ اور دوست شہروز کے خلاف زہر اُگل رہے تھے ۔ ہانیہ وہاں گئی سب نے زور دار نعرہ لگایا اور اس کو صحت مند لوٹنے کی مبارکباد دی ۔ اس نے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ۔
ہانیہ تجھے پتہ ہے یہ آگ کس نے لگوائی تھی ۔۔ شہروز نے ۔۔۔ وہاں کھڑے لڑکوں نے اسے بتایا کہ وہ اسی وجہ سے احتجاج کر رہے ہیں الیکشن دوبارہ کروائے جائیں کیونکہ یہ آگ شہروز نے لگوائی ہے ۔ وہاں سے شہروز کے سپورٹرز بھی آگئے تھے ، دونؤں گروہؤں کے درمیان بحث شروع ہوگئی ، ہانیہ طاہر اور جہانگیر کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی جو زور زور سے چلارہے تھے ، ہانیہ شور سے ویسے ہی گھبراتی تھی سر تھام کہ رہ گئی اسی وقت کہیں سے شہروز آگیا ۔اس کے ایک اشارے پر اس کے سارے سپورٹرز خاموش ہوگئے تھے ۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو جاکر الیکشن کمیشن میں اپنی شکایت درج کروائے ۔اس طرح کالج کا ماحول نہ خراب کریں میری دونوں ہاتھ جوڑ کرآپ لوگوں سے گزارش ہے ۔ وہ سب کو لے کر چلا گیا تھا ، وہ سب کوئی پانچ دس نہیں پچاس ساٹھ کی بھیڑ تھی جسے لے کر وہ جارہا تھا اور ہانیہ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی کیا شان تھی اس کی کیسے آیا اور اتنا بڑا جھگڑا لمحوں میں ختم کرکے چلا گیا ۔وہ دن تو جیسے تیسے گزر گیا کیونکہ ڈین نہیں آئے تھے لیکن اگلے دن سب کی حاضری ہوگی یہ اعلان کردیا گیا تھا دونوں فریقین کو جمع ہونا تھا ۔ نوٹس بورڈ پر نوٹس لگا تھا ۔
اگلے دن شہروز کے سپورٹرز بازوؤں پر نیلے رنگ کی پٹیاں باندھے اس کو سپورٹ شو کر رہے تھے ۔ اس کی دوست انعم بھی شہروز کی سپورٹر تھی ،ابھی سب کلاس میں ہی تھی کیونکہ شروع کی کلاسسز جو گیارہ سے پہلے کی تھیں وہ سب خاموشی سے اٹینڈ کر رہے تھے ۔ جہانگیر والوں نے بازوؤں پر سیاہ رنگ کی پٹیاں باندھی تھیں ایک لڑکے نے آکر اس کو دی بھی تھی لیکن ہانیہ نے پہنی نہیں تھی ۔
کلاس کے بعد سب ڈین آفس کی جانب کسی قافلے کی صورت میں بڑھ رہے تھے ، شہروز کو تھوڑی تھوڑی دیر میں اس کے ساتھی کندھوں پر اُٹھا لیتے تھے ، پورا کالج نعروں سے گونج رہا تھا ۔جب یہ لوگ ڈین کے پاس پہنچے ، ہانیہ بھی بھیڑمیں شامل تھی ۔  جب اندر سے ڈین کے اسسٹنٹ نے شہروز اور جہانگیر کو بلایا ۔ ہانیہ جلے پائوں کی بلی کی ماندد بے چین یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی ۔تو کیوں پریشان ہے ۔۔ انعم نے اس کاہاتھ پکڑ کر روکا ۔یا ر وہ۔۔ اس نے نظر اُٹھا کر انعم کو دیکھا ۔ اس کی نگاہیں بتا رہی تھیں وہ کچھ کہنا چاہتی ہے ۔ تجھے اندر جانا ہے ۔۔ جواب میں ہانیہ نے صرف گردن ہلائی ۔ ٹھیک ہے تو اند ر چلی جا کچھ کرتے ہیں ۔ انعم نے پیچھے مڑ کر طاہر کو کہا اس نے زور زور سے دروازہ  کھٹکھٹایا اسے لگا تھا ہانیہ ہی جہانگیر کو سپورٹ کر سکتی ہے ۔دروازہ کھلااندر سے غصے میں اسٹنٹ نکلا ۔ سر مجھے کچھ کہنا ہے میرا بیان سچ سامنے لاسکتا ہے جب آگ لگی تھی میں وہی تھی میں نے دیکھا ہے آگ کس نے لگائی ۔ بھیڑ میں ایک دم خاموشی چھاگئی ۔ چلو اندر ، اتنی دیر سے خاموش کیوں تھی ۔ وہ اسے اندر لے گیا وہاں جہانگیر نے اسے دیکھ کر اطمینان کا اظہار کیا جبکہ شہروز نے اس کو ہمیشہ کی طرح مسکرا کر دیکھا۔اسسٹنٹ نے سرگوشی کی ، جی مس ہانیہ آپ تو جہانگیر کی سپ۔۔ ڈین کچھ کہتے ہانیہ بول پڑی ، سر میں یہاں سچ بتانے آئی ہوں مجھے کسی کے نام کے ساتھ منسوب نہیں کریں  مہربانی ہوگی ۔ جی تو بتائیے کیا بات ہے ۔ سر یہ میسجز ہیں گروپ کے میری بات کا ثبوت ، جس کے مطابق یہ آگ جہانگیر اور طاہر کا پلان تھا ، وہ لوگ شہروز کو نیچا دکھانا چاہتے تھے میں نے سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن کسی نے میری نہیں سنی ، مجھے لگا جزباتی ہوکر ایسے کہہ رہے ہیں لیکن یہ لوگ سچ میں اتنا گر جائیں گے ۔۔ جہانگیر کی سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیا ہورہا ہے وہ حیرت سے ہانیہ کو دیکھ رہا تھا جس نے ان  لوگوں کا سارا پول کھول کر رکھ دیا تھا ۔
کچھ دیر بعد جب وہ کمرے سے نکلے تو شہروز نے اپنے گلے میں پڑے اس نیلے رنگ کے کپڑے کو ہانیہ کے گلے میں ڈال دیا تھا ۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر باہر آیا تھا۔ سب دیکھ کر  حیران تھے تب شہروز نے بولنا شروع کیا ۔ میں بہت خؤش قسمت ہوں کہ مجھے آپ لوگوں جیسے مخلص دوست ملے ہیں جوحق بات کہنے سے نہیں ڈرتے ، میں ہماری نئی ساتھی ہانیہ کا شکر گزار ہوں جو نہ ڈریں نا گھبرائیں اور سچ کا ساتھ دیا ، آج ہانیہ کی گواہی نے ہمیں پھر سرخرو کیا ہے ۔حق کا بول بالا ہو۔اس کا یہ کہنا تھا کہ سب نے پھر اسے اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا اور نعروں کے ساتھ اسے وہاں سے لیجانے لگے ہانیہ کو اس کے قریبی دوستوں نے اپنے ہاتھوں کی کڑی  بناکر پورے پروٹوکول کے ساتھ لے کر جارہے تھے ۔
منگنی کی رسم ہوگئی تھی ، ہانیہ اور شہروز اسٹیج پر بیٹھے ہوئےتھے جبکہ سب آکر گروپ فوٹوگرافس بنوارہے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد شہروز کھڑا ہوگیا اپنے ایک دوست کو اشارہ کرکے اس نے مائیک تھاما ۔
ایکسکیوز می لیڈیز اینڈ جینٹل مین میرے پیارے امی بابا، ماما جان اور پاپا آج آپ سب کے سامنے میں اپنی جان ہانیہ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ اس کی بات سن کر پورے ہال میں اوہوکی صدا گونجی ، ہانیہ کی دوستوں نے اسے کہنی ماری دیکھو تو زرا دولہا بھائی کیاکہ رہے ہیں، ہانیہ نے شرما کر نظریں جھکا لیں ۔ آج میں بتا چاہتا ہوں کہ آئی لویو سو مچ ۔۔ جب میں تمھیں پہلی بار دیکھا تھا میں تو اسی پل دل ہار بیٹھا تھا ۔۔ تمھارا حق بات پر کسی سے بھی لڑجانا مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے اس دن جو تم نے اپنے دوستوں کو بھی نہیں دیکھا کہ کون غلطی پر ہے بس آکر سچ کہہ دیا ۔۔ میں تو مر ہی گیا تھا ۔۔ وہ مسکرا یا ۔ سارا ہال اووو ۔۔ کی آواز کے ساتھ ہنس پڑا ۔  شہروز نے آگے بڑھ کرایک گٹھنے پر بیٹھتے ہوئے گلابی رنگ کا ٹیولپ اس کی طرف بڑھا یا جو اس کے ڈریس سے میچ کر رہا تھا ۔ کیا تم میرے ساتھ ڈانس کرو گی پلیز۔۔۔  سب نے آوازیں لگانی شروع کردیں ۔ سے یس سے یس۔۔ ہانیہ نے اس کے ہاتھ سے پھول کر اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھ دیا۔پیچھے کوئی فرینچ میوزک تھا جس پر وہ اور شہروز چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھا کر ناچ رہے تھے
 
                                                                                                 
By Kainat shabbir.
       

4 AMAZING WELLNESS HABITS FOR LIVING YOUR BEST LIFE

I love wellness trends, but I’m also skeptical (thanks to the influence of my highly skeptical boyfriend) about what is actually beneficial for my well-being. I’m learning more about how to take care of my health holistically, and have a handful of practices that make me feel good. All that said, I’m not a doctor or nutritionist, and you should definitely consult one if you want personalized tips from experts for your specific needs. These are the wellness habits I’ve adopted and when I follow them, I feel like a healthier version of me. I’m a work-in-progress here, and making more improvements every day. But I have made lots of beneficial strides along the way and I’m the healthiest I’ve been in years.

Wellness drinks

One of my favorite wellness-y things to do is make wellness drinks. Based on Ayurvedic practices, you should only drink warm or hot beverages, especially when you wake up. So one of my go-to wellness drinks is hot water with apple cider vinegar (ACV) and lemon. ACV has an insane amount of benefits like regulating blood sugar, improving skin health, and boosting your gut health to name a few.

Dry brush

I love dry brushing daily. The benefits of dry brushing before your daily shower include increasing blood circulation and exfoliating your skin. Some people say it helps decrease the appearance of cellulite as well, but there’s no significant research proving that. You go in small upward motions from your feet to your neck, and you can do it on your face as well. Personally, I just stick with dry brushing my body as I lightly exfoliate my face with my cleanser.

Stretch daily

Stretch for five minutes or twenty-five minutes, it doesn’t matter as long as it’s a part of your ritual. This is especially vital if you’re sitting at a desk all day long. Our body needs some bending and twisting. There are so many yoga videos online that are as short as five minutes if you need a little motivation to start doing it. Or use a little challenge to keep you motivated. Try keeping a yoga mat handy or maybe do stretches while you cook dinner or before you get in the shower.

Try to eat a colorful variety of nutritious foods

When meal-prepping, getting all your nutrients in your diet is challenging. For me, I want simple recipes so I’ll make simple dishes. But it occurred to me that I was limiting my nutritional variety. So, this week, I made an effort to make more meal preps that included a colorful variety of nutritious fruits, veggies, proteins, etc. Like I mentioned earlier, I’ll think of the fab four and I’ll make sure that I’m getting in a handful of goods.

5 WAYS TO OVERCOME YOUR OVERWHELM

Feeling overwhelmed? First of all, that’s ok. It’s normal to feel out of control sometimes.
But getting swept up in overwhelm shifts our perspective of ourselves, allowing self-doubt, anxiety and helplessness to creep in and set-up shop in our head.
Big projects can seem unachievable, juggling between family, friends, work and me-time is harder than usual and even the smallest of tasks can leave us frustrated.
In times like these (and we ALL have times like these), here are a few ways we can overcome our overwhelm and get back on track to living our best life.

Accept the anxiety

We’ve become a society of people who are always striving for those feel-good feelings. The warm and fuzzies. And we do whatever we can to avoid any negative feelings: sadness, anger, worry, anxiety. Rather than avoiding them, accept the fact that you’re overwhelmed and stare the anxiety straight on. This will cause you to look at the big picture and take action.

Say no

Whoever came up with the term “Yes Man” has a lot of explaining to do. When did we forget that it’s actually ok to say no to someone, decline to take on extra work or back out of something because it no longer feels like the right thing to do? I say, a long time ago.
Saying no can be an incredibly liberating thing. It might take some time to practice and execute but the results are well worth it.

Ask for help

Stop thinking you can take on the world on your own.
There’s nothing wrong with asking for or accepting help from others. Most people are innately driven to help others and feel valued when they are asked for help.
This is something that does come easier to women, so guys – if you’re struggling to keep up, just swallow your pride and get some help.

Focus on right now

Not the end of the project, the impending deadline or the 17 things on your to-do list that only keeps growing.
Focus on the present moment and change your mindset that everything needs to be completed right now.
That said, take some time to plan how you’re going to tackle it all. Set aside ten-twenty minutes each day to set a schedule, time-block or reflect on what you’ve already done. Planning can make the world of difference. Just knowing you have a plan in place will naturally calm your mind and just go about ‘getting it done’.

Stop multitasking

By definition, multitasking means that we are doing too much.
Scientifically speaking, multitasking causes your body to produce more stress hormones. Seriously. Our short-term memory weakens, we use up all the glucose way too quickly and it leaves us feeling exhausted.
So doing more actually results in less efficiency. Go figure.