تقسیم ہند سے پہلے چونکہ سارا علاقہ ہندوستان کہلاتا تھا ۔سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے قْصبے کا رہائشی محمد قاسم اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ گزر بسر کررہا تھا اور اس کا ایک چھوٹا سا گھر تھا اور تھوڑی سی آبائی زمین تھی جس سے اس کا اسکی بیوی اور پانچ بچوں کا گزر بسر بہت مشکل سے ہورہا تھا ۔محمد قاسم ایک گاڑی بان تھا ۔ معاشی طور پر کمزور محمد قاسم اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہا تھا ۔ غربت نے اسکی کمر توڑ رکھی تھی اس نے اپنے بچوں کی بہتر پرورش اور مستقبل کیلئے شہر جانے کا سوچا۔ اپنی آبائی زمین گاؤں کے چوہدری کے پاس رکھوائی اور شہر کی راہ لی ۔ دہلی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں چھوٹے سے گھر میں رہائش اختیا کی اورامرتسر جا کر کام کرنے لگا ۔ ابھی زنگی اپنی ڈگر پر آّئی بھی نہ تھی کہ محمد قاسم کے گھر پر ائک موضی مرض ’ خسرہ‘ نے حملہ کردیا جس سے چند ہی دنوں میں اسکی بیوی انتقال کرگئی اب پانچ بچوں کی پرورش کی زمہ داری بھی اسکے کندھوں پر آگری ابھی وہ اپنی بیوی کی موت کے غم سے باہر نہ آیا تھا کہ اسکے دوسرے بیٹے کی بھی اسی بیماری کی وجہ سے موت واقع ہو گئی اس دکھ کو جھیل ہی رہا تھا کہ یکے بعد دیگرے د و اور بچوں کی موت نے اسے ہلا کر رکھ دیا قاسم اپنے بڑے اور سب سے چھوٹے بیٹے جس کی عمر محض چھ ماہ تھی کے ساتھ اکیلا رہ گیا ۔ زخموں سے چور محمدقاسم نے زندگی کی طرف لوٹنے کی کوشش کی وہ دکھوں کا مارا اپنے بچوں کی پرورش کیلئے دوبارہ کام پر جانے لگا ان دنوں پاکستان بننے کی تحریک زوروشور سے جاری تھی ۔اور مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی تھی ۔وہی ہندو جو مسلمانوں کے بھائی بنے پھرتے تھے مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہوگئے ۔محمد قاسم اپنے دونوں بچوں کوگھر میں بند کر کے امرتسر جاکر
نوکری کرتا اور بچوں کو تلقین کرتا کہ گھر میں کوئی آواز نہ کرنا اور نہ ہی بلا وجہ دروازہ کھولنا ۔ قاسم شام کو گھر واپس آتا ،تھکا ہارا قاسم پہلے بچوں کو نہلاتادھلاتا اور پھر کھانا کھلا کر سلا دیتا قاسم کا چھوٹا بیٹا جسکو ماں کی اشد ضرورت تھی بیمار رہنے لگا اور قاسم کو ہر وقت دہڑکا لگا رہتا مگر شاید خدا کواس معصوم کی زندگی منظور نہ تھی ان ہی دنوں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا اور ہندو مسلمانوں کو چن چن کر قتلکرنے لگے حالات د ن بدن مسلمانوں کیلئے کٹھن ہوتے جا رہے تھے ۔محمد قسم نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور اپنے دونوں بچوں کے ساتھ سیالکوٹ جانے کیلئے تیار ہو گیا جو اب پاکستان کا حصہ تھا ۔ یہ ہجرت آسان نہ تھی ہندو گھات لگائے بیٹھے تھے کہ کوئی مسلمان زندہ بچ نہ سکے ۔محمد قاسم کسی نہ کسی طرح بچتے بچاتے ہجرت کرنے میں کامیا ب ہو گیامگر ابھی شاید اسکی آزمائش ختم نہ ہوئی تھی ۔وہ اپنی جو زمین چوہدری کے پاس گروی رکھوا کر گیا تھا اس پر چوہدری قبضہ کت چکا تھا ۔ قاسم کیلئے یہ ایک نیا امتحان تھا ۔اس نے اپمے چھوٹے سے گھر میں رہائش اختیا رکی ۔وہ ہندوستان سے لٹا پٹا آیا تھا ۔بدن پر دو کپڑے ، دو کمسن بچوں کا ساتھ اور بھوکے پیٹ ویسے بھی قاسم کو پریشان کرنے کیلئے کافی تھا اب یہ مصیبت بھی سر آن پڑی تھی ۔گاؤں کے چوہدری سے مقابلہ آسان نہ تھا ۔وہ بہت طاقتور تھاقاسم نے مناسب سمجھا کہ چوہدری سے بات کی جائے اور لڑائی جھگڑے کے بغیر اس مسئلے کا حل نکالا جائے ۔بات چیت کرنے سے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا اور قاسم کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ چوہدری نے اسے دھتکار کر نکال دیا ۔اب معاملہ قاسم کی برداشت سے باہر ہو گیا اوراس نے سوچا کہ اب آر یا پار ۔اس نے پختہ ارادہ کیا کہ کل میں اپنی زمین چوہدری کے قبضے سے چھڑواکر رہوں گا اس نے ایک قریبی دوست جو اسکی طرح غریب تھا اس کے ذمہ لگایا کہ اگر میں مارا جاؤں تو ان دونوں بچوں کو کسی نہ کسی طرح ان کے ننھیال پہینچا دینا شاید قدرت کو اس پر رحم آگیا کہجب وہ اپنی زمین پر ہل چکانے گیا اور چوہدری کو للکارا کہ میں اپنی پر ہل چلانے آگیا ہوں ہو اسکی ہمت دیکھ کر چوہدری کی ہمت ٹوٹ گئی چوہدری کے کارندوں نے کوشش کی کہ کسی طرح ا س کو روکا جائے وہ
سب مسلح تھے مگر چوہدری نے انہیں روک دیا اس دن سے اللہ نے اس پر کرم کیا اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا سالہاسال محنت کرتے اسکے بیٹے بھی اس کے بازو بن گئے اور اس کے ساتھ محنت مزدوری کرنے لگے ۔قلیل وقت میں اسکا چھوٹا بیٹا جو تھوری بہت تعلیم حاصل کر چکا تھا اس نے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں رکھا آج اس ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ملک کی بڑے اداروں میں ہوتا ہے ۔ اس چوہدری کے بیٹوں نے اسے گھر سے نکال دیا اور جائیداد پر قبضہ کر لیا ۔چوہدری پائی پائی کو ترسنے لگا ۔اللہ کو اولاد کی نافرمانی کبھی پسند نہ آئی چوہدری کی اولاد بھی اللہ کی پکڑ میں آ گئی آج چوہدری کا بیٹا اسی انڈسٹری کے قائم کردہ خیراتی ادارے سے وظیفہ حاصل کرتا ہے ۔قاصم نے اللہ پر بھروسہ کیا اور اسکی اولاد نے اسکا ساتھ دیا اور آج وہ عزت دار لوگوں کی صف میں شامل ہے اور چوہدری کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔
تحریر : صبا افضل
No comments:
Post a Comment