سوچنے والی بات ہے رمضان کا حاثات سے کیا تعلق بے پناہ برکتوں اور فضیلوں سے بھرہور یہ مہینہ اس میں ایسا زکر کیوں ۔ ۔۔ تو اپنے اردگر نظر دوڑائیے خود ہی سمجھ جائیں گے ۔ رمضان میں رکھے جانے والے روزے اس مہینے کی خاص اور سب سے اہم اور بنیادی عبادت میں سے ایک ، ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس ماہِ مبارک کے روزے رکھے ۔ لیکن اس کے ساتھ جو ایک سبق ہمیں سکھایا جاتا ہے صبر کا وہ کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ سڑکوں کی حالت رمضان میں قابلِ توجہ ہوتی ہے ۔ یہ چیز اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب صبر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے یعنی افطار کے وقت جہاں اتنا وقت صبر کیا ہے وہاں تھوڑا اور صحیح ، لیکن سوچ اس کے برعکس ہوتی ہے اتنا صبر کر لیا اب اور نہیں ۔ ۔
سب کو گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے ۔ ٹریفک کا ایک اژدھام ہوتا ہے ۔ جو سفر آدھے گھنٹے کا ہو وہ اس جلدی میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے اور کبھی کبھی اس سے بھی تجاوز کر جاتا ہے ۔ پہلے میں نکل جاؤں کی جستجو میں ہر گاڑی آڑھی تر چھی کھڑی ہوجاتی ہے ۔ پھر ہارنز کا بے ہنگم سماعتوں کو منجمد کرتا شور ہوتا ہے اور بے تحاشہ دھواں ۔ پھر ایسے میں جس کو جہاں سے جگہ ملی نکلنے کی کوشش ، سامنے کون آرہا ہے ۔ غلط سمت میں گاڑی جارہی ہے۔ رفتار حد سے تجاوز کر رہی ہے ۔ بائیک سوار تو اس بات کی پرواہ بھی نہیں کرتے کے وہ تنہا نہیں ان کے ہمراہ خواتین ہیں جو ان کے ساتھ بیٹھی ہیں ۔
اسی افراتفری کا نتیجہ حادثات کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔ جس کے بعض اوقات کافی سنگین نتائج بھی سامنے آتے ہیں ۔ حادثہ زیادہ بڑا بھی ہوسکتا تھا۔ جو نکل رہے ہیں جلدی میں وہ اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ناصرف وہ دوسرے جو ان کے اپنے ہیں اورا س وقت ان کے ہمراہ ان کے شریکِ سفر ہیں بلکہ وہ دوسرے جو ان کے آس پاس سفر کرتے اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں ۔
افطار کے وقت ایک بڑی تعداد میں بہت سی شاہراہوں پر سٹی وارڈن کے اہلکار نظر آتے ہیں جو دھوپ ، گرمی اور روزے کی حالت میں لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کی خاطر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ کیا ہم ایسی بد تہذیب قوم ہیں جو ایک دوسرے کا خیال نہیں کرسکتے ، ایک ٹریفک کانسٹیبل ہمارے لئے کافی نہیں کے وہ اشارہ کرے رکنا ہے تو سب رک جائیں ہاتھوں میں لاٹھیاں اور بندقیں تھامے سٹی وارڈن اور ٹریفک پولیس کے ڈھیروں کانسٹیبل ایک ہی شاہراہ پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ کیوں ۔۔ جس طرح دنیا بھر میں ہوتا ہے ایک ٹریفک سگنل ساری گاڑیوں کو زیبرہ کراسنگ سے پہلے روک دیتا ہے ۔ پھر انہیں چلنے کا حکم کرتا ہے تو وہ چل پڑتی ہیں۔ کبھی سوچا ہے ہم انسان ہیں یا گائیں بھینسیں جنہیں چلانے کیلئے پورا کا پوراقافلہ چاہئیے ۔
کیا ہم خود احتسابی نہیں کرسکتے ، ہمیں رمضان کا احترام نہیں ۔کیسا روزہ رکھا جس میں ایک دوسرے کا احساس کرنا بھی نہیں سیکھا ، یہ کیسا جبر ہے خود پر جس میں صبر کا مطلب ہی سمجھ نہیں پائے ۔ یقین جانئے روزے کا مطلب بھوکا پیاسہ رہنا نہیں ہے ۔جس طرح اﷲ تک ہماری قربانی کا گوشت اور کھال نہیں پہنچتے اسی طرح اﷲ کو ہمارے بھوکے پیاسے رہنے سے بھی کچھ نہیں مل رہا ، ہمیں ہمدردی کا مساوات کا بھائی چارے کا درس دینے والا یہ مہینہ اگر روزہ رکھ کر بھی آپ نے کچھ نہیں سیکھا تو آپ نے روزہ کے نام پر بس فاقہ کیا ہے ۔ جس کی شاید اس رب العزت کی نظر میں کوئی اہمیت نہ ہو۔
روزے کے اصل مفہوم کو سمجھتے ہوئے اپنے غصہ اور نفس پراپنی اجارہ داری قائم کریں ۔نہ صرف روزے کا حق ادا ہوجائے گا ۔بلکہ اس جہاں میں جنت کے راستے بھی کھل جائیں گے ۔
No comments:
Post a Comment